قدرت کی کار سازی کے کرشمے جنہیں دنیا معجزوں اور عجائب کا نام دیتی ہے ہمیشہ سے بنی نوع انسان کی دلچسپی کا محور رہے ہیں۔ یوں تو ہر نفس ہی اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے تاہم جب یہ کہا جائے کہ اکیسویں صدی کے وسط میں آج بھی ایک ایسا پرندہ موجود ہے جس کی مشابہت تین کروڑ برس پہلے جیسے پرندوں جیسی ہے تو یہ یقینا حیرت انگیز ہے۔ یہ پرندہ جسے ”پیلیکن“ کا نام دیا گیا ہے ہزاروں برس پہلے پائے جانے والے عظیم الجثہ ڈائنو سار کے زمانے میں موجود ”ٹروڈ کٹائل“ سے ملتا جلتا ہے۔ صرف قدامت ہی نہیں بلکہ ”پیلیکن“ کی عجیب وغریب اور انفرادی چونچ بھی دلچسپی کا باعث ہے۔ اس کی چونچ کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا اوپر والا حصہ عام پرندوں کی چونچ جیسا ہی ہے تاہم نچلا حصہ تھیلا نما ساخت رکھتا ہے۔ اس تھیلے میں وہ اپنے لیے مچھلیاں محفوظ کرتا ہے مچھلیوں کی تعداد اتنی ہوتی ہے جو اس کی خوراک کیلئے کافی ہوں۔
پیلیکن کی تاریخ تو قدیم ہے ہی اس کی جسامت اور بناوٹی خصوصیت نے اسے عجائبات قدرت میں شامل کردیا ہے وہ ان پرندوں کی باقیات خیال کیا جاتا ہے جو آج سے تین سے چار کروڑ سال پہلے کرہ ارض پر موجود تھے۔ اس زمانے میں پرندوں کی تقریباً ڈیڑھ کروڑ اقسام پائی جاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پرندوں کا وجود مٹتا گیا اور اب یہ تعداد اقسام کے لحاظ سے نو ہزار کے قریب ہے۔
پیلیکن ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے بالکل پرکشش نہیں ہے۔ نہ اس میں خوبصورتی ہے اور نہ شان نرالی ہے۔ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے بطخ کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہو۔ اس کے پاوں بھدے اور بڑے بڑے چپووںکی مانند ہیں۔ یہ تیرتے اور اڑتے وقت بہت عجیب لگتا ہے خصوصاً جب تیرتا ہے تو یوں معلوم پڑتا ہے جیسے اس کی گردن میں بل پڑگیا ہو۔ اپنے مضحکہ خیز حلیے اور عجیب و غریب بناوٹ کے باوجود پیلیکن غضب کا شکاری ہے اس کی چونچ ایک فٹ تک لمبی ہوتی ہے اور یہی اس کی دلچسپی کی علامت ہے۔ پیلیکن اڑنے والا پرندہ ہے مگر پیراکی میں بھی ماہر ہے۔ اڑتے وقت اس کے طاقت ور پر‘ چھ سے دس فٹ تک پھیل جاتے ہیں اور اس کی رفتار اڑتے وقت 35 تا 40 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ اپنے بھاری وجود کے باوجود یہ کئی گھنٹوں تک فضاءمیں رہ سکتا ہے۔
بھورے رنگ کے پیلیکن پرندوں کا غول صبح سویرے یا گروب آفتاب کے وقت دیکھا جائے تو دیکھنے والے کو یہ نظارہ مسحور کردیتا ہے۔ پیلیکن ایک قطار کی شکل میں سفر کرتے ہیں اور جب یہ غول پرواز کرتا ہے تو ان میں سے ایک پیلیکن رہنمائی کا کام انجام دیتا ہے ان کی خوراک مچھلیاں اور دیگر سمندری کیڑے مکوڑے ہیں۔ پیلیکن جب سمندر پر محو پرواز ہوتا ہے تو یہ 50 فٹ کی بلندی سے بھی اپنا شکار دیکھ لیتا ہے۔ جب ایک پیلیکن کو سمندر میں اپنا شکار دکھائی دے جائے تو وہ ایک دم اپنی پرواز کا رخ تبدیل کرکے سمندر کی طرف مڑ جاتا ہے اور اپنے نصف کھلے ہوئے پروں کے ساتھ سمندر میں غوطہ لگادیتا ہے۔ غول میںموجود باقی پرندے بھی اس کی تقلید کرتے ہیں اور جب یہ سمندر سے اپنا شکار کرکے واپس سر نکالتے ہیں تو ان کی تھیلے نما چونچیں مچھلیوں سے بھری ہوتی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ بھاری جسامت کے باوجود جب پیلیکن پچاس فٹ کی بلندی سے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں تو ان کے بھاری جسم کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا، تو اس کا جواب بھی قدرت کی کار سازی میں پوشیدہ ہے۔ دراصل پیلیکن کی کھال کے نیچے چھوٹے چھوٹے قدرتی خانے ہوتے ہیں (شہد کے چھتے کی مانند) جن میں ہوا بھری رہتی ہے۔ ہوا کے باعث نہ صرف یہ سمندر میں غوطہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ گہرائی تک غوطہ لگا کر دوبارہ اوپر اڑ بھی جاتے ہیں۔ پیلیکن ایسا شکاری ہے اگر وہ پانچ مچھلیوں کو شکار کرنا چاہے تو چار تو لازماً اس کی پکڑ میں آجاتی ہیں۔اسے بھوک چونکہ بہت زیادہ لگتی ہے اس لیے جہاں یہ رہتا ہے وہاں کی مچھلیاں بہت جلد کھاجاتا ہے اسی وجہ سے خوراک کا قحط پیدا ہورہا ہے اور دھیرے دھیرے اس کی نسل فنا کی جانب گامزن ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 867
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں